وادی سندھ کی تہذیب کی معدوم زبان - عزيز ڪنگراڻي

وادی سندھ کی تہذیب کی معدوم زبان

وادی سندھ کی تہذیب کی معدوم زبان

 22/01/2025 عزیز کنگرانی pakistanIndiasindh

دنیا کے ماہرین کی موجودہ تحقیق کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب 8000 سال قدیم ہے۔ اس رائے کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ وادی سندھ کی زبان بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی وادی سندھ اور اس کی تہذیب قدیم ہے مگر آج تک یہ زبان معدومی کا شکار ہے۔ اس کی تحریر کو پڑھنے یا سمجھنے کے لیے دنیا کے ماہرین کی کوشش ناکام رہی ہے۔

دنیا بھر کے ماہرین نے وادی سندھ کی زبان پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر اب تک انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ وادی سندھ کی زبان اور اس کی تحریریں کثیر تعداد میں ہڑپہ اور موہن جو دڑو سے دریافت ہوئیں۔ یہ تحریریں 1922 ء سے لے کر آج تک معدومی کے عالم میں ہیں۔

وادی سندھ کی زبان با الخصوص موہن جو دڑو کی وہ زبان کون سی تھی جس کی تحریر انڈس اسکرپٹ کے روپ میں تھی؟ یہ آج تک ایک معمہ ہے۔ آسکو پارپولا اور دوسرے ماہرین نے موہن جو دڑو سے ملنے والی مہروں پر تحریروں کی روشنی میں اپنے مختلف مضامین اور کتابوں میں بحث کرتے ہوئے تحریروں کی ارتقا بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب کی طرح تحریر یا انڈس سکرپٹ والی تحریر ارتقائی مراحل سے گزری ہے۔ آسکو پارپولا کے مطابق وادی سندھ کی تحریر 7000 ہزار سال سے ارتقائی مراحل میں سے گزری ہے اور انڈس اسکرپٹ کا عروج 2500 قبل از مسیح سے 1900 قبل از مسیح تک ہے۔

اکثر ماہرین اس خیال کے ہیں کہ وادی سندھ کے لوگ دراوڑ تھے اور ان کی زبانیں بھی دراوڑی یا ڈراویڈین تھیں۔ وادی سندھ میں اس وقت دراوڑی زبانیں بولی جاتی تھیں اور انڈس اسکرپٹ ان میں سے ایک بڑی دراوڑی زبان کا تحریری نظام تھا۔ موجودہ ہندوستان کے کچھ دراوڑی زبانیں بولنے والے لوگوں کی جانب اسے اپنی زبان کا تحریری نظام ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ انڈس اسکرپٹ پڑھنے کے لیے تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ کے مقرر کردہ انعام کے اعلان کے پیچھے بھی یہ ہی مقصد سمجھا جا سکتا ہے کہ سندھو گھاٹی کی تحریر یا انڈس اسکرپٹ کو تامل زبان کی تحریر ثابت کیا جائے۔ جب کہ سندھی اور براہوئی دانشور انڈس اسکرپٹ کو اپنی زبانوں کا تحریری نظام سمجھتے ہیں۔

وادی سندھ کی تہذیب 1900 قبل از مسیح میں اچانک صفحۂِ ہستی سے غائب ہوئی تو اس کی زبان اور تحریر معدومی کا شکار ہو گئی۔ اس معدومی کو آریا لوگوں نے زیادہ معدوم بنایا اور اس کی شناخت کو تاریکی کی غار میں دھکیل دیا۔ آریا لوگ وادی سندھ میں 1700 یا 1500 قبل از مسیح میں گروہوں کی شکل میں داخل ہوئے۔ انہوں نے مقامی دراوڑ لوگوں کو غلام بنانے کی کوشش کی۔ ان کی سرزمین اور املاک پر قبضہ کیا۔ ان کے بیوپار اور کاروبار کو برباد کیا۔

دراوڑں پر بھاری ٹیکس لگائے۔ انہیں کمتر اور نیچ کہنا شروع کیا۔ قیاس قرین ہے کہ آریوں کے قبضے اور مظالم کی وجہ سے وادی سندھ میں بسنے والے دراوڑوں کی تحاریر یا اس کا تحریری رکارڈ گم ہو گیا ہو گا۔ اس وجہ سے وادی سندھ کے دراوڑوں اور ان کی تحاریر کا تاریخی تعلق کسی بھی دراوڑ قوم یا زبان یا اس کے تحریری نظام سے نہیں ملتا۔ اس لئے وادی سندھ کی زبان یا تحریر آج تک معدوم ہی رہ گئی ہے۔ کچھ دراوڑ قومیں وادی سندھ کو خیر باد کہا اور ہندوستان کے دوسری علاقوں میں جا کر آباد ہو گئیں جب کہ براہوئی جا کر بسے۔

آریوں نے ویدک کلچر کو جنم دیا۔ وید بر زبان طور بیان کیے گئے جو صدیوں تک سینا بہ سینا بیان ہوتے چلے آئے۔ ویدوں میں سب سے پرانا یا قدیم رگ وید ہے جو 1500 قبل از مسیح سے 1300 قبل از مسیح کے درمیان کہا گیا اور وہ تحریری رکارڈ پر 300 قبل از مسیح سے 200 قبل از مسیح میں لایا گیا۔ رگ وید سنسکرت میں کہا گیا جو آریوں کی زبان رہی۔ آریوں نے ہی سنسکرت تخلیق کی اور پھر پنڈتوں راجاؤں اور ان کی دربار کی زبان بن گئی۔

سنسکرت کے پیروکار کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وادی سندھ کی معدوم زبان اور تحریر کا تعلق سنسکرت سے ہے۔ اس مفروضے کی کوئی بنیاد نہیں۔ اگر دونوں میں تعلق ہوتا تو اب تک انڈس سکرپٹ پڑھ لیا جاتا۔ بڑی بات یہ ہے کہ سنسکرت کا کوئی قبیلہ یا قوم نہیں۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ صدیوں سے سنسکرت کا اپنا تحریری نظام بھی نہیں رہا۔ مطلب کہ کسی بھی دور میں سنسکرت کی اپنی الفابیٹ نہیں رہی۔ سنسکرت براہمی یا براہمی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی اور سکرپٹ میں لکھی یا تحریر کی جاتی تھی۔

اگر سنسکرت کا ویدک دور میں تحریری نظام ہوتا تو وید برزبان نسل در نسل بیان نہ کیے جاتے۔ وید 200 قبل از مسیح کے بجائے ویدک دور میں ہی تحریر کیے جاتے یا تجریری رکارڈ پر لائے جاتے۔ کچھ ماہرین انڈس سکرپٹ کا تعلق براہمی سے بتاتے ہیں۔ اگر اس طرح بھی ہوتا تو اب تک انڈس سکرپٹ پڑھ لیا گیا ہوتا۔ ان مفروضوں کو آسکو پارپولا اور جوناتھن مارک کینایر نے بھی اپنی تحقیقی تحریروں میں رد کیا ہے۔

مشہور محقق اور سندھی زبان کے ماہر سراج الحق میمن کا خیال ہے کہ سندھی زبان کا تعلق وادی سندھ کی زبان سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھی دراوڑوں کی زبان ہے جس کا انڈو آرین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ پروٹو ڈراویڈن زبان ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ ویدک دور کے ’پنی‘ اور ’فونیشن‘ یا ’فنیقین‘ کے تحریری نظام یا سکرپٹ کا تعلق وادی سندھ کے تحریری نظام اور انڈس سکرپٹ سے ہے۔ مذکورہ لوگ وادی سندھ کے بیوپاری یا کاروباری لوگ تھے۔ میں دو اسباب یا وجوہات کے بنیاد پر سراج میمن کی تائید کرتا ہوں جو میرے موضوع میں بھی شامل ہے۔

1 ماہرین کا کہنا ہے کہ سنسکرت میں کہے گئے رگ وید میں ادھار کے طور پر لیے گئے دوسری زبان کے الفاظ ہیں۔ رگوید میں ادھار کے طور پر ان الفاظ کا تعلق بالکل سندھی زبان سے ہے۔ ان میں سے ایک دو الفاظ کی مثال شامل کرتا ہوں۔ ایک لفظ ہے ’کری‘ جس کا اردو میں مطلب ہے پرہیز۔ دوسرا ’کرڑ‘ جو ایک درخت کا نام ہے۔ تیسرا ’ڈنڈو‘ جسے اردو میں ڈنڈا کہتے ہیں جو لکڑی کا ہوتا ہے۔ لفظ کانو مطلب ایک آنکھ سے اندھا جو دراصل پروٹو دراوڑی لفظ ہے۔ ایسے کئی الفاظ ہیں جو اب بھی سندھی میں رائج ہیں۔ یہ ادھار لیے گئے الفاظ تین باتیں ثابت کرتے ہیں۔

ایک یہ کہ سندھی زبان سنسکرت سے جداگانہ حیثیت میں ویدک دور میں موجود تھی۔ دوسری یہ کہ سندھی کا تعلق وادی سندھ کی زبان سے ہو گا جس کی جڑیں آریون نے کاٹ اور اکھاڑ لیں۔ تیسری بات یہ کہ اس حوالے سے سندھی انڈو آرین نہیں بلکہ دراوڑ زبان ہے جو ویدک دور میں مکمل زبان تھی جس سے سنسکرت نے الفاظ ادھار لیے۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنسکرت اور سندھی زبان نے ایک دوسرے کا اثر لیا اور پیرلل ارتقا کی۔ یہ خیال بھی رد ہوتا ہے کہ سندھی زبان سنسکرت میں سے نکلی ہے۔ جس زبان سے الفاظ ادھار لیے گئے ہوں وہ یقیناً الگ اور مکمل زبان ہوگی۔

2 میں نے تحصیل جوہی ضلع دادو سندھ کی حدود میں کیرتھر پہاڑی سلسلے میں پہاڑوں ہر نقش کیا گیا انڈس سکرپٹ دریافت کیا ہے۔ جس پر میری انگریزی میں کتاب ’انڈس سکرپٹ ان اسٹونز‘ شایع ہوئی ہے۔ جہاں سے مجھے انڈس سکرپٹ کی نقش نگاری ملی ہے وہ علاقہ موہن جو دڑو سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ انڈس سکرپٹ کے علاوہ یہاں اندازن 700 عیسوی میں نقش کی گئی سنسکرت کی تحریریں پالی براہمی اور خروشتی سکرپٹ بھی ملے ہیں۔ حاصل مطلب یہ کہ موہن جو دڑو سے باہر سندھ میں انڈس سکرپٹ کا ملنا ثابت کرتا ہے کہ وادی سندھ کے شہروں کا اس کے گاؤں اور پہاڑی علاقوں سے رابطہ تھا اور اس کی زبان بھی وہیں موجود تھی۔

ویدک دور میں سندھی زبان کا موجود ہونا اور یہاں سندھ کے پہاڑوں میں پتھروں پر انڈس سکرپٹ ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وادی سندھ کی معدوم زبان کا تعلق سندھی زبان سے ہو گا مگر یہ بات بھی اب تک تحقیق طلب ہے۔ اگر انڈس سکرپٹ پڑھا اور سمجھا گیا تو وادی سندھ کی زبان معدومی سے نکل آئے گی اور دوسری طرف سندھی زبان جو اب انڈو آرین زبان کے گروہ میں شامل ہے وہ بھی اس معدومی سے نکل کر دراوڑی زبان میں شامل کی جا سکتی ہے۔

معدوم کے اسباب

1۔ ماہرین کے مطابق مہروں پر ملنے والا انڈس اسکرپٹ بہت مختصر علامتوں پر مشتمل ہے۔ سمیر، میسوپوٹیمیا یا مصر کے ہیوگلفس کی طرح اگر طویل تحریر میں ملتا تو سمجھا جا سکتا تھا۔ کیوں کہ اس طویل تحریر میں حروف یا الفاظ اور ان کی آوازوں دہراء ہوتا۔

2۔ انڈس اسکرپٹ بائی لنگول یعنی دو زبانوں میں لکھا ہوا ملتا تو بھی ڈسائفر ہو جاتا جیسے کشان دور کے سکوں پر براہمی اور خروشتی تحریریں تھیں۔ براہمی کی مدد سے خروشتی پڑھی گئی۔ یا سنسکرت کی مدد براہمی تحریر پڑھی گئی تھی۔

3۔ انڈس اسکرپٹ ٹرائے لنگوئل نہیں ملا۔ یعنی تین زبانوں میں نہیں جسے میسوپوٹیمیا اور ہیروگلفس تین زبانوں میں ملے تو آسانی سے پڑھے گئے۔

4۔ وادی سندھ کی وہ زبان اب تک معدومی کا شکار ہے جس کی انڈس اسکرپٹ جیسی تصویری تحریر تھی۔ اگر زبان معدوم نہ ہوتی تو وادی سندھ کی قدیم ترین تحریر پڑھی جا سکتی تھی۔

ان اہم وجوہات کی بنا پر وادی سندھ کی معدوم زبان معلوم نہیں ہو سکی اور اب تک معدومی کے اندھیرے میں ہے۔ جب انڈس اسکرپٹ تصدیق شدہ انداز میں سمجھا اور پڑھا گیا تو وادی سندھ کی زبان معدومی کے اندھیرے میں سے نکل آئے گی۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ بشمول پاکستان کی سنجیدہ کوششیں درکار ہیں۔

 

Copyright @2025 Sindhu Script. All Rights Reserved by Sindhi Language Authority

Powered by Abdul Majid Bhurgri Institute of Language Engineering