سندھی زبان کی اہمیت و ارتقائی عمل
سندھی زبان کی اہمیت و ارتقائی عمل شبنم گل جمعرات 28 مئ 2015 شیئرٹویٹشیئرای میلتبصرے مزید شیئر مزید اردو خبریں shabnumg@yahoo.com shabnumg@yahoo.com سندھی زبان قدیم ترین زبان ہے، جس کی جڑیں پانچ ہزار سال کی تہذیب میں پیوستہ ہیں۔ موئن جو دڑو سے دریافت شدہ مہریں و دیگر اشیا پر کنندہ الفاظ اب معمہ نہیں رہے۔ اس نامعلوم زبان کو پڑھنے کی سالہا سال کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں۔ سندھ کے بہت سے محقق اس زبان کو جاننے کے لیے مستقل جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ جن میں غلام محمد بھنبھرو بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں ان کی انڈس اسکرپٹ انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب نے موئن جودڑو کی زبان کے حوالے سے کئی پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کے قدیم باشندے مختلف زبانیں بولتے تھے اور ان کے مذاہب بھی الگ تھے۔ اسی طرح رسم الخط بھی منفرد تھے۔ دو سو کے قریب رسم الخط پائے جاتے ہیں۔ جب کہ سندھ میں نو رسم الخط مروج ہیں۔ سندھ کا خطہ زمین کی زرخیزی، دریاؤں کے کناروں پر آباد رنگا رنگ تہذیبیں، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کی باعث بیرونی حملہ آوروں کے لیے کشش کا حامل رہا ہے۔ ایک دوسرے میں ضم ہوتی ہوئی ثقافتوں کی وجہ سے، سندھی زبان ارتقائی عمل سے گزرتی ہوئی فروغ پاتی رہی۔ سندھ میں عرب کے دور حکومت میں سندھی زبان بولی اور لکھی جاتی تھی۔ 270ھ میں پہلی بار سندھی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ ہوا۔ اسلام سے پہلے سندھ کے باشندے مشرق وسطیٰ آتے جاتے رہے۔ ہندو تاجر، ایران، عربستان، بلخ اور بخارا جایا کرتے۔ ان سفری مشاہدوں اور مختلف ثقافتوں کا اثر سندھی زبان پر غالب آنے لگا۔ سندھی زبان کے کئی الفاظ رگ وید میں ملتے ہیں۔ کیپٹن اسٹئک نے 1845ء عیسوی میں سندھی زبان کا گرامر ترتیب دیا۔ یہ کتاب دیوناگری لپی میں لکھی گئی۔ رچرڈ برٹن نے ذاتی طور پر اثرورسوخ استعمال کیا کہ عربی وسندھی رسم الخط مروج ہوسکے۔ سندھی زبان کے محقق اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ رچرڈ برٹن بھیس بدل کر عربستان گیا تھا۔ وہ اپنا نام عبداللہ بتاتا تھا۔ اسے عربی زبان پر مہارت حاصل تھی۔ اس نے عربی داستان الف لیلیٰ کا انگریزی میں ترجمہ Arabian Nights کے نام سے کیا تھا۔ جب مختلف زبانیں ملتی ہیں، تو خوبصورت خیال جنم لیتے ہیں۔ انگریزی کے ماہر انھیں Loan Words یعنی ادھار لیے جانے والے الفاظ کہتے ہیں۔ دوسری زبانوں سے مستعار لیے جانے والے الفاظ کے لیے Coinage کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سندھی زبان پر ایشیا کی مختلف زبانوں چینی، سنسکرت، عربی، یونانی اور لاطینی زبانوں کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کی باعث انگریزی کا اثر ایشیا و افریقا کے ملکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جن ممالک میں جنگیں ہوئیں، وہاں حملہ آور اپنی زبان اور ثقافت لے آئے اور مختلف زبانوں کا تبادلہ ہوا۔ مثال سنسکرت میں مرچ کو پپالی کہا جاتا ہے۔ جرمن میں پیپری اور انگریزی میں پپر کہلاتی ہے۔ سندھی زبان میں فارسی، عربی، سنسکرت، انگریزی کے بہت سے الفاظ ملتے ہیں۔ ڈاکٹر غلام علی الانا لکھتے ہیں ’’اٹھارویں صدی تک سرکاری طور پر سندھی رسم الخط (صورتخطی) کو ترتیب نہیں دیا گیا تھا۔ فارسی، ادبی و سرکاری زبان تھی۔ سندھی روزمرہ میں استعمال کی جاتی تھی۔ سندھی زبان کو تعلیم، خط و کتابت کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود ہندو و مسلمان سندھی کاروباری زبان کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ہندو اس وقت دیوناگری طریقے کی صورتخطی استعمال کرتے تھے۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ 1853ء میں رچرڈ برٹن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں ہندو و مسلمان دونوں شامل تھے، سندھی کے 54 الفاظ ترتیب دیے گئے جن میں بعد میں کچھ رد و بدل کیا گیا۔ انگریز جب سندھ میں آئے تو سندھ کی ثقافت اور صوفی شاعری سے بہت متاثر ہوئے، ڈاکٹر ارنیسٹ ٹرمپ علمی و لسانی طور پر مانے ہوئے عالم تھے۔ ڈاکٹر ٹرمپ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے انگریزی زبان میں شاہ لطیف کی خوبصورت تشریح کی۔ کلہوڑہ دور میں سندھی حروف تہجی کی ترتیب دی گئی۔ کلہوڑہ دور میں سندھی زبان، ادب و شاعری پر بہت کام ہوا۔ گو کہ شعرا پر فارسی و عربی اثر تھا۔ مگر اس کے باوجود اکثر شعرا نے سندھی زبان کو فوقیت دی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے فقط سندھی زبان میں شاعری کی۔ زبان کی وحدت نے ان کے کلام کو آفاقیت بخشی۔ دوسرے سندھی شعرا جو مختلف زبانوں میں شاعری کرتے تھے، ان کا انداز فکر مختلف زبانوں میں بٹ کر رہ گیا۔ شاہ لطیف نے سندھی زبان کو منفرد لب و لہجہ، خالص پن اور نئی جہت عطا کی۔ زبان قدرت کا عطیہ ہے۔ چونکہ شاعری لاشعوری ردعمل ہے، لہٰذا مٹی کی قربت بے ساختہ اظہار کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ زبان، مطالعے، تجربے، مشاہدے و ماحول کا نچوڑ کہلاتی ہے۔ موجودہ رسم الخط کلہوڑہ دورکی صورتختی کا جدید روپ ہے۔ انگریزوں کے دور میں دیوناگری خط اور لپی وقت کے ساتھ معدوم ہوتے چلے گئے اور حکومتی سطح پر عربی، سندھی کو عام کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض محقق اس عمل کو سازش گردانتے ہیں۔ کیونکہ ’’برھمی لپی‘‘ انڈس اسکرپٹ سے تشکیل پائی ہے۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ سندھ کے کمشنر مسٹر پرنگل نے سفارش کی تھی کہ سندھی زبان کے لیے ’’خداوادی خط‘‘ رائج کیا جائے۔ جو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا۔ زبان کا سماجی، ثقافتی و اقتصادی پس منظر ہے۔ زبان انفرادی اظہار، نظریے و تخلیقی قوت کی ترجمانی کرتی ہے۔ جس قوم کی معیشت مستحکم ہے وہ زبان اقتصادی پس منظر میں خوب پھلتی پھولتی ہے۔ انگریزی اعلیٰ طبقے کی نمایندہ زبان سمجھی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی کیفیت سندھ کے نوخیز جوانوں کی تھی جو علی گڑھ یونیورسٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جاتے اور اردو بولنے میں فخر محسوس کرتے۔ اس زمانے میں اردو شاہی زبان کہلاتی۔ اس وقت اکثر لوگوں نے اردو اسپیکنگ لڑکیوں کے ساتھ شادی کی اور ان کے گھروں میں سندھی کے بجائے اردو بولی جانے لگی۔ جس طرح اردو زبان آج کل انگریزی کے زیر اثر ہے۔ اس لیے خالص اردو لہجہ مشکل سے ملتا ہے۔ بالکل اسی طرح سندھی اردو و انگریزی کے بڑھتے رجحان سے برسر پیکار ہے۔ پاکستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، براہوہی، سرائیکی، ہندکو، بالتی اور شینا زبانیں شامل ہیں۔ اردو کو اس وقت قومی زبان کا درجہ دیا گیا جب وہ فقط محدود پیمانے پر بولی جاتی تھی۔ جب کہ علاقائی زبان بولنے والوں کا تناسب زیادہ تھا۔ اردو قومی زبان کا درجہ حاصل کرنے کے باوجود سرکاری طور پر تحریری زبان نہ بن سکی جب کہ انگریزی سول ایڈمنسٹریشن و بیورو کریسی کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ دہرا نظام کئی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ سندھ کے نجی اسکولوں میں مادری زبان کا مضمون شامل نہیں ہے۔ سندھی بچے مادری زبان سمجھ تو لیتے ہیں مگر لکھ نہیں سکتے۔ شہری سندھی بچے زیادہ تر انگریزی و اردو میں بات کرتے ہیں۔ زبانیں بھی طبقاتی تفریق کا سبب بنا دی جاتی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی 70 زبانیں اپنی اہمیت و خالص پن کھو چکی ہیں۔ سندھی و علاقائی زبانوں کو اہمیت ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ملی۔ اس حوالے سے دی انسٹیٹیوٹ آف فوک ہیریٹیج 1972ء میں اسلام آباد میں تشکیل پایا اور علاقائی زبان کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملا جن میں سندھی زبان بھی شامل ہے۔ سندھی زبان میں لوک ادب کا ذخیرہ موجود ہے۔ لوک ادب کا ورثہ سمیٹے ہوئی زبان کو دنیا میں زرخیز ترین زبان کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ سندھی زبان میں لوک گیت، گیت بول، پرولی، بجھارت، دوھے، سنینگار، لوک کہانیاں، سورٹھو، سلوک، ڈھس، ھنر وغیرہ شامل ہیں۔ 1855ء میں سکھر شہر سے مطلع خورشید نامی اخبار شایع ہوا ۔ اس کے بعد صحافتی دنیا میں کئی اخبار دکھائی دیے جن میں سندھ سومار، سرسواتی، آفتاب سندھ، خیرخواہ، الحق، سندھ واسی، الوحید وغیرہ شامل ہیں۔ 1946ء میں مہران ادبی مخزن نے سندھی زبان کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ 1956ء میں ون یونٹ کے دوران ادب و صحافت نے اہم کردار ادا کیا۔ ایم آر ڈی تحریک کے دوران مزاحمتی ادب نے سماجی شعور و زبان کی اہمیت کو فروغ دیا۔ اس وقت انڈیا میں بائیس قومی زبانیں ہیں۔ چائنا میں نو اور ساؤتھ افریقا میں تیرہ زبانیں مساوی بنیادوں پر قومی زبانوں کی صف میں شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں قدیم سندھی زبان قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں حاصل کر سکتی۔ سندھی زبان کو تحفظ عطا کرنے کی کوشش سندھ کی محرومیوں کا ازالہ کر سکتی ہے۔